ہمارے ایک پی ٹی ٹیچر تھے۔ گالیاں بہت دیتے تھے ‘وہ اب ریٹائر ہو گئے ہیں،گلی میں ایک کریانے کی دکان کی بنچ پر بیٹھے ہوتے تھے ۔ میراجب بھی گزر ہوتا تووہ اکثر یہی کہتے: ’’ تو میرا واحد شاگرد ہے جو مجھے سلام کرتاہے۔‘‘ پی ٹی ماسٹر صاحب کوکچھ عرصہ بعددیکھناچاہاتو وہ وہاںموجودنہیں تھے میں نے دوکاندار سے پوچھا کہ یہاں سر بیٹھے ہوتے تھے وہ کہاں ہیں؟دکاندار کہنے لگا: ان کا توحادثہ ہوگیاہے اور ان کی دونو ں ٹانگیں ٹوٹ گئیںہیں۔ بہت عرصہ بعد میں نے انہیںدیکھا کسی گاڑی میں تھے ،گاڑی میں با لکل جیسے سونے کے انداز میں سیٹ ہوتی ہے ایسے تھے۔ میں نے سوچا شاید یہ سر جارہے ہیں۔پھر کچھ عرصے کے بعد دیکھا تو بیساکھیوں کے ساتھ دکاندار کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تومیں نے وہی پرانی کہانی دہرائی۔فقیر کیا کہتا ہے ایک آنے کا سوال ہے،چاہے صبح ہو یا رات ہو۔وہ مانگتاہے فقیر کاوقت نہیںہوتا فقیر ہر وقت مانگتا ہے ،ہر کسی سے مانگتاہے ،ہر جگہ مانگتاہے،ٹرین میں فقیر ،بس میں فقیر ،صبح فقیر ،شام فقیر۔
فقیر تو فقیر ہوتاہے پھر!!تو میں نے وہی سوال کیاکہ سر السلام علیکم !خیریت سے ہیں آپکو تکلیف ہوئی تھی، مجھے پتہ چلا تھا؟ سر کچھ توجہ فرمالیں دین کی طرف ،میں نے پھروہی بات کہی۔ لیکن اس وقت جو انہوں نے بات کہی وہ اور تھی(کیونکہ میں جب بھی قصہ سنا تاہوں اس انداز سے سناتاہوں کہ میں پہلی دفعہ سنا رہاہوں اور اس انداز سے اندر وہ سارا نقشہ، وہ ساری کہانی پھرسے لوٹ آتی ہے،بہت سال پیچھے چلاجاتا ہوں )تومیں نے اپنے پی ٹی ٹیچر سے وہی بات عر ض کی کچھ اللہ کی محبت کیلئے بھی وقت نکل آئے ،کچھ لمحے اللہ کودے دیں،کہ جس کریم نے اتنا کرم کردیاہے۔ٹھنڈی آہ بھر کہ کہنے لگے: ’’بیٹا پہلے جسم ساتھ دیتاتھا دل ساتھ نہیںدیتاتھا ،اب دل ساتھ دیتاہے مگر اب جسم ساتھ نہیں دیتا۔ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں، بڑی مشکل سے بیساکھیوں سے گھسٹتاہوا یہاں آتاہوں، تنہائی کا شکارہوں، تنہائی کی وجہ سے یہا ں آتاہوں ۔پہلے جسم ساتھ دیتاتھا دل ساتھ نہیں دیتاتھا ،دل کہتاتھا اچھا ٹھیک ہے کرلیں گے ۔یہ تو ہوجائے گا بعد میں بھی ۔کوئی نہیں اللہ بڑا غفوررحیم ہے کرلیں گے۔‘‘ یہ لفظ بڑاعجیب ہے کہ اس وقت جسم ساتھ دیتاتھا اوردل ساتھ نہیں دیتاتھا،اب دل ساتھ دیتاہے مگر جسم ساتھ نہیںدیتا۔ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں، بڑی مشکل سے بیساکھیوں سے گھسٹتاہوا یہاں آتاہوں، تنہائی کا شکارہوں ،تنہائی کی وجہ سے یہا ں آتاہوں ۔پہلے جسم ساتھ دیتاتھا دل ساتھ نہیں دیتاتھا ،دل کہتاتھا اچھا ٹھیک ہے کرلیں گے ۔یہ تو ہوجائے گا بعد میں بھی ۔کوئی نہیں اللہ بڑا غفوررحیم ہے کرلیں گے۔‘‘ یہ لفظ بڑاعجیب ہے کہ اس وقت جسم ساتھ دیتاتھا اوردل ساتھ نہیں دیتاتھا،اب دل ساتھ دیتاہے مگر جسم ساتھ نہیںدیتا۔
ہوئے نامور بے شمار کیسے کیسے؟:اللہ والو! بڑی مختصر زندگی ہے۔اکثر بڑی حویلیا ں جو ہم بناتے ہیں ان میں دیواریں آجاتی ہیںایک شخص کہنے لگا کہ: آٹھ کینال کی کوٹھی پلاٹنگ ہوکر بِک رہی تھی میں اس میںپلاٹ لے لوں؟مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ: یہ لوکیشن ہے یہ نمبر ہے۔ اچانک ماضی کے دریچے میں جھانکاکہ کسی نے یہ بنگلہ بنایا ہوگا۔
اس وقت جس جگہ ہم درس میں بیٹھے ہیں اس کانام’’ میم کی کوٹھی‘‘ تھا ،یہاں ایک صاحب مقیم تھے کسی انگریز عورت سے شادی کی تھی۔یہ کئی کینال کی کوٹھی تھی‘ ان کے بڑے بڑے کتے تھے۔جب میں یہاں نیا نیا آکرسیٹل ہوامیں ان کے ہاں گیا، دیکھاکہ بڑے بڑے پتیلے چڑھے ہوئے تھے، میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ کہنے لگے: کتوں کیلئے گوشت اُبل رہا ہے،کم وبیش دس کلو سے زیادہ گوشت ہوگا۔ بڑے بڑے پتیلے، آگ پر چڑھے ہوئے تھے ،بڑے بڑے بہترین کتے بندھے ہوئے تھے، ان کوکتوں کا بڑا شوق تھا ’’میم کی کوٹھی‘‘ تھی ۔ جیل روڈ ایسی ہی کوٹھیوںاوربنگلوں پر مشتمل تھا ۔اب بھی روزنامہ پاکستان کے ساتھ ایک کوٹھی موجود ہے ،جہاں سارے رئیس یا انگریز رہائش پذیر ہیں،یہ امراء کا علاقہ ہے۔اب یہ کوٹھیاں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم ہو گئی ہیں ۔جنت میں اپنے لیے گھر کی بکنگ تو کرالو:اللہ والو!دنیا میں اتنے مرلے زمین لے لی، اتنے کنال زمین لے لی،اتنے ایکڑ لے لی، جنت کے ایک مرلہ کابھی نہ سو چا؟دنیا کے اعتبار سے سمجھ دار ہیں، باقاعدہ رجسٹری ،ڈاکومنٹس اوراس کے کاغذات چیک کرکے اپنی رجسٹری محفوظ کرواتے ہیںاور ہماری دیوانگی کا عالم یہ ہے کہ نہ جنت کا ایک مرلہ لیا اورنہ اس کی سند دیکھی۔اس کی رجسٹری نہیں دیکھتے کہ کونسا ایسا عمل ہے، اس کو چیک ہی نہیں کرتے،پھر یہ بھی نہیں دیکھتے ہیںکہ یہاں رجسٹری منسوخ ہوجا تی ہے۔جنت کے مرلوں کی بھی رجسٹر ی منسوخ ہوجاتی ہے ،خیال رہے!!! جنت کی رجسٹری بھی منسوخ ہوجاتی ہے، وہ کیسے ؟ ۔وہ اس طرح کہ وعدہ ہے کہ عمل کرواور قبر تک حفاظت کے ساتھ لے جاؤورنہ رجسٹری منسوخ ہوجائیگی، منتقلی کسی اور کے نام ہوجائیگی۔زندگی بڑی مختصر ہے۔تو کامیاب انسان وہ ہے جس کے ساتھ دعاؤں کی طاقت ہو،اعمال کی طاقت ہو ۔
دینی و روحانی مجالس میں شرکت رب کریم کی نعمت
جوآج ہمیںدینی مجالس میسرہیںجس میں ہم بیٹھے ہیں اسکو مؤثر بناتے چلیں جائیں ،شکر کریں کہ اللہ نے آج آپکا گھنٹہ سواگھنٹہ یہاںلگوادیا،اللہ چاہے تو ٹریفک کی بھیڑ میں، عدالت میں ،کچہر ی میں، ہسپتال میں وقت لگوادے بلکہ ان سے بھی گھٹیا جگہ پر وقت لگوادے،اس لیے شکر کرناچاہیے کیونکہ اس کریم کا وعد ہ ہے جو شکر کرتاہے اس کی نعمت بڑھا دیتاہوں ، اللہ سچا، اُس کا حبیب سچا، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے وعدے بھی سچے ،اس لیے شکر کرو اللہ والو!کہ ہر ہفتے کے بعد ہمیںتوفیق دے دیتاہے اس کی محبت میںتسبیح خانے چند لمحے گزار لیتے ہیں۔ بستر پر بھی گزرسکتے تھے ،اللہ نہ کرے جیل میں بھی گزرسکتے تھے (جاری ہے)
جہاں زنجیروں سے باندھ دیا جاتاہے، جن لوگوں کے فریکچر ہوتے ہیںان کی ٹانگیں،ان کے پاؤں زنجیروں سے باندھ دیئے جاتے ہیں۔ہم ایک دوسرے کودیکھ سکتے ہیں۔الحمدللہ ہم ان آنکھوں سے قرآن دیکھ رہے ہیں ،ماں باپ کی صورتیں دیکھ رہے ہیں ، اللہ والوں کی زیارتیں کررہیں ہیں۔
آج آنکھیں میسر ہیں،نعمتیںدیکھ لو،ایسی مجالس کو دیکھ لو یہ میسر ہے،کہیں آنکھیں نہ چھن جائیں۔
آج کان میسر ہیں ان کانوں کو اللہ کی محبت کے جملے سنوادو،اللہ والو !یہ کان خدانخواستہ کہیں چھن نہ جائیں یہ سماعت ختم نہ ہوجائے،ان کانوں کے اندر اللہ کی محبت کے رس گھولنے والے جملے ڈلوادو،یہ طبیعت نہیں مانے گی، یہ من نہیں مانتا، اس من کو ہم نے عیاش بنالیا ہے، اس طبیعت کو بہت بگاڑ لیاہے،یہ ایسی پابندیوں کو نہیں مانتا ،ان مجالس کونہیں مانتا،یہ رکاوٹیں ڈالتاہے،یہ کہتا ہے نہ جا۔۔۔۔۔۔اس من کو بہلا کر،پھسلا کر،منت کرکے ،اس پر جبر کرکے اسے لانا پڑے گا ،ورنہ یہ وقت گزر جائے گا ۔اب تک نہیں آتے تھے وقت گزر رہا تھا اور پورا ہفتہ گزر جاتاہے اور دن کا تو ویسے ہی پتہ نہیں چلتا ۔زندگی ایسی مختصر سی اور سمٹتی چلی جارہی ہے۔
عنقریب ہم اور تم بھلادیئے جائیںگے
ایک بات سوچ کر بتائیں‘ دل میں سوچیں ۔اپنے اس قریبی عزیزکے متعلق سوچیں جودنیا سے رخصت ہوگیا۔والد‘والدہ‘بیٹی‘بیوی‘بھائی‘دوست ‘ماموں استاد کوئی قریبی عزیز جو دنیا سے رخصت ہوگیا ہو ،ان کے بارے میں سوچیں۔۔۔۔۔۔! سوچ لیا ؟ اب مجھے سچ بتائیںکہ دن میں کتنی دفعہ ان کو یاد کرتے ہیں ؟ہفتے میں کتنی دفعہ ان کو یاد کرتے ہیں ؟مہینے میں کتنی دفعہ ان کو یاد کرتے ہیں ؟سال میں کتنی دفعہ اس کو یاد کرتے ہیں ؟
اور آنے والا دور اس سے بھی عجیب دور آرہا ہے شائد اب ہم یادکرلیتے ہوںگے،مگر یہ بات نوٹ کرلو ہم ایسے ہی بھلادیئے جائیںگے کہ بھولنا ہی یاد نہیں رہے گاکہ بھولنا ہی بھول گئے۔لہذا اپنے ساتھ کوئی سامان لے لو اللہ والو! اعمال کا ، ذکر کا ،نماز کا ،یہ اللہ والی مجالس ہیں ان کی قدردانی کا ان میں آنے کا سامان لے لو اللہ والو! یہ بہت مبارک مجالس ہیں آج کے دور میں نعمت ہیں۔
دنیاوی ماحول ایمان سوز ہے
مجھے ایک صاحب کہنے لگے کہ: ’’مجھے ہفتہ بھر درس کا انتظار رہتاہے کہ میرے اندر کی ٹیوننگ یعنی سروس ہوجاتی ہے۔‘‘ کہنے لگے کہ:’’ میںتو اپنی گاڑ ی کا فیول یعنی ایندھن لینے آتاہوں ہفتہ بھر میری گاڑی ٹھیک چلتی رہتی ہے ۔‘‘
ہم سارے محتا ج ہیں کیونکہ دنیا کا جو ماحول ہے وہ ایمان سوزہے ایمان ساز نہیں۔ اورمیرے دوستو اس ایمان سوز ماحول کے اندرآپ کا رہنا سہنا،آپ کا کھانا پینا،آپ کا دیکھنا،سننااور بولنایہ سب ایمان سوز ہوتا جارہاہے۔کچھ تو روح کی فکر کری۔اپنی روح کو ایمان ساز ماحول میں لے آئیں ۔اس جسم کو توساری زندگی، ہر پل ،چوبیس گھنٹے ،پورا ہفتہ، اس جسم کو دنیا وی مجالس اور محافل میں لگا یا ۔روح کا بھی حق ہے روح کو بھی کچھ وقت دیاکرو، روح کی غذا روحانی مجالس،روحانی محافل ہوتی ہیںجہاں آپ بیٹھے ہیںیہاں روح کی غذائیں ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ روح کو فاقوں میں ڈال دیا جائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں